ایک بادشاہ اپنے وزیروں کو خونخوا ر کتوں کےآگے ڈال دیا کرتا تھا،۔۔حیران کردینے والا قصہ

کہا جاتا ہے کہ کئی سوسال پہلے کسی ملک پر ایک بادشاہ کی حکومت تھی جوبہت ظالم تھا۔ وہ اپنے وزیروں کو کسی غلطی یا جرم پر سزا دینے کےلئے خونخوار جنگلی کتوں کے سامنے پھینک دیا کرتا تھا جو انھیں چیر پھاڑ کر ہلاک کرڈالتے۔ بادشاہ کا فیصلہ اٹل ہوتا تھا اور کسی ناگہانی آفت یا انتہائی مجبوری کی صورت میں بھی وہ اپنا فیصلہ
نہیں بدلتا تھا۔ کوئی بھی منت سماجت اسے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی تھی۔ وزیر بادشاہ کی اس سخت مزاجی سے بہت تنگ تھے ۔ لیکن بادشاہ سمجھتا تھا کہ ملک میں عدل و انصاف اور تعمیر ترقی کےلئے سزائوں کے قانو ن کا سخت ہونا ضروری تھا۔ ایک بار ملک میں زوروں کی بارش ہوئی۔ہرطرف پانی ہی پانی ہو گیا۔بادشاہ نے اپنے امور داخلہ کے وزیر کو حکم دیا کہ وہ جا کردریا کا معائنہ کرے اور ملک کو سیلاب سے بچانے کےلئے کوئی مناسب اقدامات کرے ۔وزیر نے دیکھا کہ دریامیں پانی کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ اسے ایک ہی بات سمجھ میں آئی کہ دریا کہ اس کنارے کوتوڑ ڈالے جو پڑوسی ملک کی سرحد سے ملحقہ تھا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اور کنارہ توڑنے کا حکم دے دیا۔اور خوشی خوشی دربار کو لوٹ آیا۔ دریا میں پانی کی سطح کم ہونے سے اس کا ملک تو بچ گیا لیکن پڑوسی ملک میں سیلاب آگیا۔ پڑوسی ملک کےحاکم نے غیض و غضب کا شکار ہو کر بادشاہ کو جنگ کےلئے تیار ہو جانے کا پیغام بھجوا دیا۔ اس پر بادشاہ نے اپنے وزیر کو سزائے موت سنا دی اور اسے از خود ہی خونخوار کتوں کے سامنے کود جانے کا حکم دے ڈالا۔وزیر نے التجا کی کہ ظل الٰہی ، میں نے دس سال آپ کی خدمت کی ہے ۔صرف ایک غلطی کی بنا پر سزائے موت دینے کا فیصلہ ظلم ہے۔ لیکن بادشاہ اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ وزیر کو ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ اس کی خدمت کے صلے میںسزائے موت کو صرف دس دن کےلئے موخر کردے۔بادشاہ مان گیا اور وزیر کو دس روز کی زندگی بخش دی۔ وزیر فوراً اس احاطے میں پہنچا جہاں وہ خونخوار کتے بند تھے ۔ اس نے کتوں کی نگرانی پر مامور نگران کو حکم دیا کہ وہ دس روز کی رخصت پر چلا جائے۔ نگران نے دس روز کےلئے مشقت سے خلاصی پاتے ہی شکر ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔ وزیر نے کتوں کو اپنے ہاتھ سے گوشت اور دودھ کھلانا پلانا شروع کر دیا۔ اور ان کا اتنا خیال رکھا کہ کتے اس سے مانوس ہو گئے ۔دس روز گزر گئے۔ بادشاہ نے وزیر کو پکڑ کر لانے اور کتوں کے آگے ڈالنے کا حکم دے دیا۔جلد ہی وزیر اس احاطے کے باہر کھڑا تھا جہاں کتے خوفناک آنکھیں کھولے اور زبانیں کھولے کھڑے تھے۔ وزیر کی موت کا تماشہ دیکھنے اور عبرت پانےکےلئے وزرا ،درباریوں اور عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع تھی۔وزیر کو دھکا دے کر اس احاطے میں گرایا گیا۔ لیکن کتوں نے اسے چیرنے پھاڑنے کی بجائے اس کے پائوں چاٹنے اور اس کے گرد دم ہلانی شروع کر دی ۔ وہاں پر موجود سب لوگ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بادشاہ بھی حیرت کی تصویر بن کر رہ گیا۔وزیرمسکراتا ہوا احاطے سے باہر آیا اور کہنے لگا۔حضور والا! میں نے دس سال آپ کی خدمت کی ۔ اور آپ نے صرف ایک غلطی پر مجھے موت کی سزا سنا دی۔ لیکن ان کتوں نے صرف دس روز کے احسا ن کا بدلہ مجھے میری زندگی دینے کی صورت میں دیا۔خود ہی انصاف کر لیجئے۔ کہ آپ کا فیصلہ درست تھا یا غلط۔بادشاہ نے ارد گرد دیکھا۔ وزیر کو کندھوں پر اٹھالیا۔سب لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں ۔لیکن اگلے ہی لمحے تالیاں بجنا بند ہو گئیں کہ کیونکہ بادشاہ نے وزیر کو کندھوں پر اٹھانے کے بعد کتوں کے احاطے کی بجائے مگر مچھوں کے تالاب میں پھینک دیا۔کیونکہ ایک بار انتظامیہ اپنے ماتحتوں کی واٹ لگانے کی ٹھان لے ۔تو پھر واٹ لگ کر رہے گی۔جتنی مرضی چالاکیاں کر لی جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں