ایک جنگل میں ایک شہر رہتا تھا۔ جنگل کے جانور اس سے بے حد نالاں تھے کیونکہ وہ ان میں سے کسی نہ کسی کو اپنا شکار بنا لیتا تھا۔ بالآخر جانور شیر کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ ہم تمہاری خوراک کا بندوبست بخوبی کریں گے تم ہمارا شکار رکنا ترک کر دو تاکہ ہم بھی آزادی کے ساتھ اپنی پیٹ پو جا کر سکیں۔ اس نے جانوروں سے دریافت کیا
کہ تم کہی مذاق تو نہیںکر رہے، جانوروں نے جواب دیا کہ ہر گز نہیںاور مزید کہا کہ اے جنگل کے بادشاہ احتیاط کے دامن کو چھوڑ اور توکل اختیار کر کیونکہ تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہے گا لہذا تو تو کل اختیار کر۔ شیر نے جوب دیا کہ توکل اچھی چیز ہے مگر اسباب اختیار کنے کا بھی حکم ہے۔ جانوروں نے جواب دیا کہ سعی کرنا لالچی لوگوں کا شیوہ ہے۔ اگر اسباب کا سہارا سود مند ہوتا تو لاکھوں انسان اسباب اختیار کرنے کے باوجود محرومی کا شکر کیوں ہوتے۔ تم لاکھ کوشش کر لو مگر تم وہی کچھ پاﺅ جو روز ازل سے تمہارے مقدر میں تحریر کیا جا چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی شیر نے توکل پر سعی کو ترجیح دی اور اس کے فوائد گنوائے۔ شیر کے دلائل سن کر جانور خاموش ہو گئے۔ شیر نے جانوروں کو مخاط کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزانہ س کے پیٹ بھرنے کا بندوبست ہوتا رہا تو وہ شکار نہیںکرے گا۔ بالآ خر یہ فیصلہ ہوا کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ جس کا قرعہ نکلے گا وہ شیر کی خوراک بنے گا اور یہ تجویز قبول کر لی گئی۔ ّخر خرگوش کے نام کا قرہ نکل آیا۔ اس نے احتجاج کیا۔ جانوروں نے اسے اپنا وعدہ یاد دلایا اور کہا کہ جلدی سے شیر کے پاس پہنچ جاﺅ ورنہ و ہ ناراض ہو گا اور عہد شکنی ہو گی۔ خرگوش نے کہا کہ شید میری تدبیر کی بدولت سب کا بھلا ہو۔ جانوروں نے خرگوش سے اس کی تدبیر دریافت کی لیکن اس نے بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ایک روز ہے اور ہر راز فاش کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ اس بحث کی وجہ سے تقریبا ایک گھنٹے کی تاخیر ہو چکی تھی ادھر شیر غصے میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ جانوروں نے وعدہ خلافی کی تھی۔ وہ غصے سے تلما رہا تھا اور اپنے ساتھ فریب کرنے والوں کی خوب خبر لینے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ بالآخر خرگوش نے شیر کے پاس جانے کی ٹھانی۔ خرگوش کو آتا دیکھ کر شیر کے غصے میں مزید اضافہ ہوا۔ ادھر خرگوش بھی اپنی ہمت قائم رکھے ہوئے تھے اور شیر کے پاس پہنچ کر اسے مخاطب کر کے کہنے لگا کہ اے جنگل کے بادشاہ اگر جان کی امان پاﺅں تو ایک عرض کروں۔ شیر دھاڑ ا کیا بات ہے۔ ایک تو تم دیر سے پہنچے ہو اور اوپر سے باتیں سناتے ہو ۔ خرگوش نے کہا کہ جہاں پناہ میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ آپ کا لقمہ بننے کے لئے آ رہا تھا کہ راستے میں ایک اور شیر سے سامنا ہو گیا۔ اس نے ہمیں اپنا لقمہ بنانا چاہا لیکن ہم نے کہا کہ ہم اپنے بادشاہ کا لقمہ بننے کے لئے جا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ کون بادشاہ ؟ میں اس کو بھی پھاڑ کھاﺅں گا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے اپنے بادشاہ کو مطلع کرنے دو۔ اس نے میرے ساتھی کو بطور یر غمالی اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ بس دیر کی یہی وجہ ہے۔ اب آپ چلیں اور اس شیر کا علاج کریں۔ لہذا شیر خرگوش کے ساتھ چل پڑا اور اس نے کہا کہ مجھے دکھاﺅ کہ وہ شیر کہاں ہے جس نے تمہیں اور تمہارے ساتھ کو روکا تھا اور اگر تم جھوٹے نکلے تو سزا سے نہ بچ سکو گے۔ شیر خرگوش کی رہنمائی میں آگے بڑھنے لگا اور خرگوش شیر کو اپنے جال کی جانب لے جانے لگا۔ جو اس نے ایک گہرے کنویں کی شکل میں بن رکھا تھا۔ یہ خرگوش کے فریب کا جال تھا جو اس شیر کی موت کا پھندا بننے والا تھا۔ کنویں کے پاس پہنچ کر خرگوش نے شیر سے کہا کہ دوسرا شیر اس کنویں میں موجود ہے۔ شیر نے جب کنویں میں جھانکا تو اسے کنویں کے پاس میں اپنا عکس نظر آیا۔ شیر نے اسے دوسرا شیر سمجھتے ہوئے غصہ کے عالم میں کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ اس کے بعد خرگوش جانوروں کی جانب بھاگا تاکہ ان کو خوشخبری سنا سکے کہ شیر کنویں میں گر کر ہلاک ہو چکا ہے۔ یہ خبر سن کر تمام جانوروں نے خرگوش کو گھیر لیا اور اس سے اس کے کارنامے کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔ خرگوش نے جانوروں کو تلقین کی کہ وہ دشمن کے مرنے پر خوشی منانے سے گریز کریں۔ ہم بیرونی دشمن کو تو مار ڈالتے ہین لیکن بد ترین دشمن باطن میں موجود رہتا ہے۔ باطن کے شیر کو خرگوش نہیں مار سکتا۔ دوسروں کو ہلاک کرنے والا شیر بننا آسان ہے لیکن نفس کو ہلاک کرنے والا شیر بننا مشکل ہے اور اللہ کی مدد سے ہی نفس کو ہلاک کرنے والا شیر بننا ممکن ہو سکتا ہے تاکہ اللہ کا شیر بنا جائے اور نفس سے خلاصی پائی جائے
Load/Hide Comments