بہت سے لوگ تاریخی طور پر اس مغالطے کا شکار ہوتے ہیں کہ وادی مقدس (جہاں حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ عز و جل سے کلام کیا) اور وادی راحہ (جہاں بنی اسرائیل نے حضرت موسی کے تورات کی وحی وصول کرنے کے لیے جانے کے بعد 40 روز انتظار کیا) یہ دونوں ایک مقام ہیں۔مصر کے علاقے سیناء میں آثاریاتی تحقیق اور مطالعوں کے مرکز کے ڈائریکٹر
جنرل ڈاکٹر عبدالرحیم ریحان نے “العربیہ ڈاٹ نیٹ” سے گفتگو کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کا فرق واضح کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سینٹ کیتھرین خانقاہ کے نزدیک مشہور ترین وادی کو “وادیِ راحہ” کا نام دے دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ غلطی نسل در نسل چلی آنے والی اس غلط معلومات کا نتیجہ ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کے شریعت کے احکامات کی وصولی کے لیے جانے کے بعد چالیس روز تک راحت و آرام کے لیے اسی وادی میں انتظار کیا تھا۔ اس مفروضے کو پہاڑ کے بیرونی جانب کھدے ہوئے نقش نے اور تقویت پہنچائی جو دیکھنے میں ایک بچھڑے کا منظر پیش کرتا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ وہ ہی سونے کا بچھڑا ہے جس کو بنی اسرائیل نے انتظار کے عرصے کے دوران پُوجنا شروع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر ریحان اس تمام تر معلومات کے بے بنیاد ہونے کی تصدیق کرتے ہیں کیوں کہ بچھڑے کی شکل میں پتھر کو تراشا جانا محض ایک خیال تھا جس کا مذہبی اور تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہبی حقائق اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ سونے کے بچھڑے کی عبادت کا مقام کسی پہاڑی علاقے میں نہیں بلکہ سمندر کے قریب تھا۔ اس لیے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے واپس آںے کے بعد اس بچھڑے کو نذر آتش کیا تھا اور پھر اس کو سمندر میں تلف کیا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی سورت طہ میں آیا ہے : وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا”۔ ڈاکٹر ریحان نے مزید بتایا کہ یہ بچھڑا بنی اسرائیل کے ایک ماہر سُنار سامری نے تیار کیا تھا۔ سامری نے اُس سونے کو بچھڑے کی تیاری میں استعمال کیا جو بنی اسرائیل کی خواتین نے مصری خواتین سے لیا تھا اور وہ اس سونے کو واپس کیے بغیر ہی مصر سے نکل آئیں۔ ڈاکٹر ریحان کا کہنا ہے کہ بنی اسرائیل نے چالیس روز تک جس مقام پر انتظار میں آرام کیا وہ درحقیقت طورِ سیناء ہے جو اس وقت طور سیناء شہر کی صورت میں موجود ہے۔ اسی کو وادی راحہ کا نام دیا جانا چاہیے اس لیے کہ یہ مقام بنی اسرائیل کے سفر کے راستے میں پڑتا ہے۔ اس سفر میں عیون موسی کے مقام پر بنی اسرائیل نے ایک عبادت خانہ دیکھا جہاں قدیم مصری مجسمّے موجود تھے۔ انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے بھی ان مجسموں جیسا کوئی معبود بنا دیں۔ بعد ازاں بنی اسرائیل خلیجِ سوئز کے ساحل کے متوازی ساحلی پٹی پر چلتے رہے اور پھر موجودہ طور سیناء شہر کے مقام پر پہنچ گئے۔ مصری ماہر آثاریات ڈاکٹر ریحان کا کہنا ہے کہ حضرت موسی نے اپنی قوم کو اس مقام پر چھوڑ دیا جہاں پانی اور پودوں کی فراوانی تھی اور خود شریعت کے احکام حاصل کرنے کے لیے مقدس پہاڑ کی جانب روانہ ہو گئے۔ چالیس روز کی عدم موجودگی کے دوران بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام کی واپسی کی طرف سے نا امید ہو گئے۔ اس موقع پر سامری نامی شخص نے انہیں یقین دلایا کہ اب اللہ کے نبی واپس نہیں لوٹیں گے اور پھر اس نے خواتین سے سونا جمع کر کے اس کا بچھڑا تیار کر لیا۔ ڈاکٹر ریحان مطالبہ کرتے ہیں کہ طور سیناء میں وادی حبران کے نزدیک واقع علاقے کو وادیِ راحہ نام دیا جائے جو کہ وہ اصل مقام ہے جہاں بنی اسرائیل نے 40 روز حضرت موسی کا انتظار کیا تھا.. جب کہ سینٹ کیتھرین خانقاہ کے نزدیک واقع وادی کو وادیِ مقدس کا نام دیا جائے جہاں حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے ہم کلامی کا شرف حاصل کیا تھا۔
Load/Hide Comments