عرب ممالک میں تباہی کی اصل وجہ

اور افریقہ کے مسلم ممالک پر مشتمل ہے گذشتہ دس برسوں سے ایک ایسے بحران اور تباہی کے دور سے گذررہا ہے جس کی مثال دوسری عالمی جنگ (سلطنت عثمانیہ کے زوال ) کے بعد سے نہیں ملتی ۔ عراق کی تباہی کے بعد شام‘لیبیا‘مصر‘یمن اور تیونس کے حالات نے امت مسلمہ کو ایسے حالات سے دوچار کردیا ہے
جس سے سنبھلنے سے زیادہ اس سے باہر نکلنے میں ہی نہ جانے کتنے برس لگ جائیں گے ۔ تیل کیلئے زبردستی مسلط کی گئی جنگوں کے بعد اب انقلاب اور تبدیلی کے نام پر یا پھر اسلام پسندی کے نام پر ان ممالک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس سے صرف اور صرف مسلمان ہی تباہ و برباد ہورہے ہیں ۔ ان جنگوں اور آپسی لڑائیوں کی وجہ سے مغربی ممالک کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا کاروبار خوب چل رہا ہے ۔ جتنی بڑی تعداد میں اس وقت مسلمان مشرق وسطی میں بے گھر اور بے یار و مددگار ہیں اس کی کوئی مثال شائد ہی ماضی میں موجود ہو ۔ صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسے ادارے اس انسانی بحران سے نمٹنے میں بے بسی ظاہر کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیااس انسانی بحران سے عرب ممالک نمٹ نہیں سکتے ۔ کیا ان عربوں کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جس کو وہ امداد کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ان لاکھوں بھوکے اور بے سہارا افراد کا پیٹ بھر سکیں جو اپنے اپنے ملکوں سے جنگوں اورآ پسی لڑائیوں کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان میں کئی معصوم بچے‘بزرگ ‘خواتین بھی ہیں جو انتہائی نامساعد حالات میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ہر لمحہ موت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں