پاکستان میں موجود عام درخت جس کے پانی سے کینسر کی مریضہ ٹھیک ہو گئی ، پھر امریکی حکومت نے پاکستانی ڈاکٹر کو کنٹینر بھر بھر کر یہ پودا امریکہ لانے کی ہدایت کر دی، اس کے بعد ڈاکٹر کو ایک ہیلی کاپٹر دیا اور کہا کہ۔۔۔ایسا انکشاف کہ آپ کو بھی بے حد حیرت ہو گی۔‎

پروفیسر ڈاکٹر محمد جمال عباسی لاہور کی ایک یونیورسٹی میں شعبہ کرمنالوجی(علم لجرائم )کے سربراہ ہیں ۔ ان کے ایک ساتھی استاد اور دوست اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب بھی حکیم تھے اور ادادا بھی طبیہ کالج دہلی کے بانیوں میںسے تھےلہٰذا شعبہ طب ان کو وراثت میں ملا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عباسی صاحب کے ایک کزن امریکہ میں ڈاکٹر ہیں۔ ایک دفعہ ایک امریکی خاتون اس ڈاکٹر کے پاس علاج کیلئے آئی۔
اسے مسوڑھوں کا کینسر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سوچا کہ کیوں نہ میں اس خاتون کا علاج نیم کے پانی سے کروں۔ انہیں ان کے بزرگ اکثر نیم کے خواص بتاتے رہتے تھے۔ اس خاتون کا علاج نیم کے پانی سے شروع کیا گیا۔ وہ خاتون نیم کے پانی سے غرارے کرتی اور کلی بھی کرتی۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ مدت کے بعد اس کی بیاپسی کی تو وہ مریضہ 20%ٹھیک ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے نیم کے پانی میں نیم کی مقدار بڑھا دی۔ مریضہ کو اس سے 100فیصد اضافہ ہوا۔ بپاپسی کرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ مریضہ بالکل ٹھیک ہو گئی اور کینسر ختم ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال کی انتظامیہ کو اس حیرت انگیز تجربے سے آگاہ کیا تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان بھیجا کہ کئی کنتینر نیم کی مسواکوں کے بھر کر لائیں۔ اس ہسپتال میں شعبہ طب کھولا گیا اور نیم سے کینسر کا علاج شروع کیا گیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے ذریعے پاکستان سے نیم کے پودے منگوائے گئے۔ امریکی حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو ایک جہاز دیا کہ آپ امریکہ کی ریاستوں کا دورہ کریں اور موسم کے لحاظ سے جو امریکی ریاست پاکستان سے مماثلت رکھتی ہو وہاں نیم کے پودے اگائے جائیں۔ امریکہ کے کئی ہسپتالوں میں اب نیم سے مسوڑھوں کا کینسر ختم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو امریکی حکومت نے کروڑوں ڈالر رائلٹی بھی دی۔وہ لکھتے ہیں کہ نیم کا درخت جس گھر میں ہو وہاں مچھر کبھی نہیں آتا ۔ نیم کے اس درخت کی وجہ سے ہوا شفاف ہو جاتی ہے اور ایسی فلٹر ہو جاتی ہے کہ مچھر بھی نہیں نزدیک آتے۔
نیم کی شاخوں کی مسواک مسوڑحوں کے کینسر کیلئے اکسیر ہیں۔ نیم کے پتوں کو پانی میں ابال کر غسل کرنے سے جلد تروتازہ اور دانوں ، پھنسیوں سے محفوظ رہتی ہے جبکہ نیم کے خشک پتے الماریوں میں رکھنے سے کتابیں اور لکڑی دیمک سے محفوظ رہتی ہیں۔ نیم کے پتوں کے پانی سے وضو اورنیم کی مسواک سے کیا جائے تو اس کے بے شمار طبی فوائد ہیں اور مسواک کا ثواب بھی الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج رکھاہے مثلاََ کالی مرچ کینسر کو ختم کرتی ہے۔ سبز قہوہ کینسر کیلئے مفید ہے۔
مصری قہوہ، کرکدے بلڈ پریشر کیلئے بہتر ہے۔ یہ قہوہ سعودی عرب میں دستیاب ہے۔ اس قہوے کی پتیاں گہرے سرخ رنگ کے گلاب کی پتیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اگر بلڈ پریشر زیادہ ہو تو کرکدے کا قہوہ بلڈ پریشر کی اوپر والی سطح کو کم کر دیتا ہے۔ اگر بلڈ پریشر زیادہ ہو تو کرکدے کا قہوہ بلڈ پریشر کی اوپر والی سطح کو کم کر دیتا ہے۔ اگر بلڈ پریشر کم ہو تو یہ قہوہ بلڈ پریشر اوپر لا کر انسان کو ٹھیک کر دیتا ہے۔ کلونچی اور آبِ زم زم ہر بیماری کا علاج ہیں۔ عجوہ کھجور دل کے مریض کیلئے مفید ہے۔
سات عجوہ کھجوریں صبح نہار منہ کھانے سے زہر اور جادو اثر نہیں کرتا۔ یہ تمام باتیں طب نبویؐ کی کتب میں تحریر شدہ ہیں۔جنوبی ایشیا میں نیم کے پیڑ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ خاص طور سے بھارت، سری لنکا اور برما میں خاص طور پر ان درختوں کے اگانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اس کا ذکر سنسکرت کی کتابوں میں ملتا ہے اور تقریبًا چار ہزار برسوں سے اس کا استعمال دواؤں میں بھی ہوتا آرہا ہے۔
حال ہی میں بعض بین الاقوامی ایگرو کیمیکل تجارتی کمپنیوں نے نیم کے طبی فوائد پرتوجہ دی ہے اوراس بات میں دلچسپی ظاہر کی ہے کہ نیم انڈسٹریل پیسٹیسائیڈ کا ایک آرگانیک متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔ بعض عالمی کمپنیو ں نے نیم کے پیٹنٹ کا بھی دعوٰی کیا تھا جس پرعدالت میں دس برس تک کیس بھی چلتا رہا ہے۔بھارت میں ماحولیات کی ماہر وندنا شوا کے ماتحت کام کرنے والی ایک تنظیم نے یورپین پیٹنٹ کے محکمے میں نیم کو پیٹنٹ کرنے کے خلاف کیس دائر کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ
نیم ایک قدیم دریافت ہے اوراس کو پیٹنٹ کے دائرے میں لانا درست نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک طرح کی ’بائیو پائریسی‘ ہے۔وندنا شواکا کہنا ہے ’ہم بتانا چاہتے ہیں کہ مقامی علوم کو پیٹنٹ کرنا بائیو پائریسی اور بائیو ڈائیورسٹی ہے۔ ہم نے اس معاملے کو یہ سوچ کر اٹھایا تھا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک اوربڑی کیمیکل کمپنیاں نیم کو پیٹنٹ کر رہے ہیں اور نیم کو پیٹنٹ کرنے کے خلاف لڑنے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ہوسکتا‘۔راجستھان کے جودھپورعلاقے میں نیم کا پیڑ روز مرّہ کی زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے جہاں ہرگا‎‎ؤں میں نیم کے سایہ دار پیڑ کی چھاؤں لوگ بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نیم کےسایے میں دوسرے درختوں کی چھاؤں کی نسبت دو تین ڈگری درجہ حرارت کم رہتا ہے۔
انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے بھارت کے دارلحکومت دلی کواز سرنو بسانا شروع کیا تو معتدل موسم کے لیئے انہوں نے جگہ جگہ نیم کے پیڑ لگوادیئے تھے۔روایتی طور پر نیم کا استعمال مختلف بیماریوں سے بچنے اور ان کے علاج کے لیئے بھی کیا جاتا ہے۔ بچوں میں بخار یا چیچک جیسی بیماری کی صورت میں نیم کی پتّیاں ان کے بستر پر بچھائی جاتی ہیں۔خارش، تیزابیت، اور سورائسس جیسی بیماری میں نیم کو جلد پر لگانے سے آرام ملتا ہے اور ابال کر پینے سے اسہال کے مریض کو فائدہ ہوتا ہے۔نیم کی چھاؤں کا درجہ حرارت دیگر درختوں کی چھاؤں سے کم ہوتا ہے،
گرمیوں میں سردیوں کے کپڑوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے نیم کی پتیوں کو کپڑے میں رکھا جا تا ہے۔ خشک سالی کے سبب جن علاقوں میں چارہ نہیں اگتا وہاں جانور نیم کی پتّیاں کھاتے ہیں اور نمکولی سے عمدہ قدرتی کھاد بنائی جاتی ہے۔ہندستان میں نیم کی اہیمت اتنی زیادہ ہے کہ یہاں بعض علاقوں میں ہندو اس کی بھگوان کی طرح پوجا کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ کرشنا اپنے آپ کو انسانوں کے درمیان اسی طرح بھگوان بتاتے تھے جیسے درختوں میں نیم کا پیڑ بھگوان ہوتا ہے۔
نیم کا سب سے زیادہ اور عام استعمال مسواک کے طور پر کیا جاتا ہے۔جدید سائنٹفک دریافت کے مطابق نیم کی چھال سے نکلنے والا تیل بہت اہم ہوتا ہے اوراس میں موجود بعض زہریلے مادوں کا استعمال فنگس کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔ہندوستان میں نیم فاؤنڈیشن کے ہیڈ ڈاکٹر رمیش سکسینا نے جنوبی ایشیا، فلپیائن، مشرقی افریقہ اور آسٹریلیا میں پہلی بار نیم کو ایک قدرتی زہر یعنی کیڑے مار دوا کے طور پر متعارف کیا تھا۔ سکسینا کا کہنا ہے کہ ’نیم ان کے رگ رگ میں بسا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ نیم دنیا بھر میں بخار، ڈینگو، ملیریا اور ایڈس جیسی جان لیوا بیماریوں پر قابو پانے موثو رول ادا کرسکتا ہے‘
ان کا کہنا ہے کہ نیم سے استفادہ حاصل کرنے کے لیئے بھارت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان کے مطابق چین اور برازیل نیم کی خوب کھیتی کر رہے ہیں اور وہ جلد ہی بھارت کو پچھے چوڑ دیں گے۔نیم سے استفادہ حاصل کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ بڑی تجارتی کمپنیاں جنوبی ایشیا کی حکومتوں سے وابستہ نیم پر تحقیق کرنے والے محکموں کے ساتھ مل کام کریں اور ان کے ساتھ ممکنہ حد تک تعاون کریں۔فنگس میں نیم کے استعمال کے حوالے سےگزشتہ دس برسوں سے کیس چل رہا تھا جو بائیو پائریسی کی لڑائی میں بدل گیا تھااور بالآخر وہ کیس شکست سے دوچار ہوا۔
نیم سے بنی آیرویدک دواؤں کے صحیح استمعال کے لیے حکومت نے دلّی میں ایک روایتی علوم پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری قائم کی ہے۔اس لائبریری کے ڈائریکٹر ونود گپتا کہ کہنا ہے ان کی ٹیم نے ہزاروں قدیم نسخوں کو جدید طبّی اصطلاحات میں تبدیل کیا ہے جو آن لائن لائبریری میں عام لوگوں کے لیئے دستیاب ہیں۔یہ تمام معلومات دنیا کی بعض مخصوص زبانوں میں پیٹنٹ کے محکموں کو بھیجی جا‎ئیں گی تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ وہ نیم کو پیٹنٹ کے تحت استعمال کرنا چاہتے ہیں یا پھر اسی طرح جیسے ہزاروں برس سے اس کا استعمال ہوتا آیا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں