آج کل تعویذ گنڈوں کے بارے میں عوام کے عقائد میں بہت لغو ہو گیا ہے‘ خصوصاً دیہاتی لوگ تو ہر مرض کو آسیب ہی سمجھتے ہیں‘ ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ میری اولاد نہیں ہوتی‘ تعویذدے دو‘ میں نے کہا کہ اگر تعویذ سے اولاد ہوا کرتی تو کم از کم میری ایک درجن اولاد ہوتی
حالانکہ ایک بھی نہیں‘میں ان تعویذوں سے بڑا گھبراتا ہوں۔ایک پہلوان نے ممبئی سے خط لکھا کہ کشتی کیلئے ایک تعویذ دے دو تا کہ میں غالب رہا کروں۔ میں نے لکھا کہ اگر دوسرا بھی ایسا ہی تعویذ لکھوا لے تو پھر تعویذوں میں کشتی ہو گی۔ اگر عوام کے عقائد کی یہی حالت رہی اور تعویذوں کی یہی رفتار رہی تو شاید چند روز میں لوگوں کے ذہن میں نکاح کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس لئے گی۔ اس لئے کہ نکاح میں تو بکھیڑا ہے‘ وقت صرف ہوتا ہے قسم قسم کی کوشش میں تکلیف اٹھانی پڑتی ہے‘ مال صرف ہوتا ہے ‘ نانا نفقہ لازم ہوتا ہے‘ غرض بڑے بکھیڑے ہیں‘ یہ درخواست کیا کریں گے کہ ایسا تعویذ دے دو کہ عورت کے بغیر اولاد ہو جایا کرے‘ بھلا کس طرح اولاد ہویا کرے گی۔آدم علیہ السلام کی پسلی سے تو حضرت حواء پیدا ہوگئیں مگر پھر ایسا نہیں ہوا اور اب یہ چاہتے ہیں کہ خلاف معمول اولاد پیدا ہو جایا کرے اگر میں تعویذ پر پانچ روپیہ مقرر کردوں تو پھر کوئی ایک بھی تعویذ نہ مانگے۔
Load/Hide Comments