دنیا بھر کے تجارتی مراکز دسمبر سے پہلے اپنی سالانہ آمدنی کو بڑھانے کے لیے صارف کو متوجہ کرنے کے لیے مقدور بھر کوشش کر تے ہیں، اور یہ آج کی کہانی نہیں، صدیوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ طلب اور رسد کا رشتہ ہمیشہ سے مضبوط رہا ہے، کبھی طلب مصنوعی طور پر بڑھائی جاتی ہے اور کبھی حقیقی طلب کو رسد کی کمی کر کے بڑھایا جاتا ہے اور کبھی رسد کو اچانک بڑھا کر خوشنما ذرائع سے طلب پیدا کی جاتی ہے۔عیسائیت ایک عرصے سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے اور کرسمس کو مذہبی اور دنیا دار عیسائی دونوں ہی بھرپور انداز میں مناتے ہیں۔ سال بھر کی سب سے زیادہ خریداری کرسمس سے پہلے کی جاتی ہے اور نومبر کے آخر تک اسے مکمل کیا جاتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں تاجر سیلز کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں بڑی سیل نومبر کے آخری ہفتے میں لگائی جاتی ہے، جسے ’’تھینکس گیونگ‘‘ سیل کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ سیل دس روزہ ہوتی ہے اور اس کا آخری دن ’’سب سے بڑی سیل‘‘ کا دن ہوتا ہے۔ ہفتہ و اتوار پورے یورپ میں ’’ویک اینڈ‘‘ کہلاتا ہے۔ ہفتہ وار دو چھٹیوں سے پہلے والے جمعہ کو ’’گرینڈ‘‘ سیل ہوتی ہیں، جسے ’’بلیک فرائیڈے ‘‘ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۲۰۰۵ء سے عوام کا جم غفیر رات کے آخری حصّے میں ان شاپنگ مالز کے سامنے جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے تاکہ صبح دروازہ کھلتے ہی مطلوبہ خریداری کر لیں۔ اس موقع پر خریداری کا حجم کتنا ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس صرف برطانیہ میں صارفین نے ’’بلیک فرائیڈے‘‘ پر ۸․۵ بلین پونڈ کی شاپنگ کی، جو ۲۰۱۵ء کی شاپنگ ۳․۳ بلین سے پندرہ فیصد زائد ہے، جب کچھ اشیاء کی اصل قیمت پر ۸۶ فی صد تک سیل لگائی گئی تھی۔اسے بلیک فرائیڈے کیوں کہا جاتا ہے، تاریخی طور کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا، اسکی وجہ تسمیہ ’’دھندلاہٹ‘‘ کا شکار ہے، تاہم جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے: کہا جاتا ہے کہ بلیک فرائیڈے کا آغاز امریکہ میں ۱۸۶۹ء میں ہوا، لیکن اس کی وجہ تسمیہ کسی نے بیان نہیں کی۔ بعض تاریخی شواہد کے مطابق یہ نام سب سے پہلے ۱۹۶۰ء کی دہائی میں فلاڈیلفیا میں سنائی دیا اور اس کلمے کا استعمال وہاں کے ڈرائیورز اور پولیس والوں نے کیا، جو ٹریفک کی زیادتی اور شاہراہوں پر لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے تنگ تھے، کیونکہ اس روز اتنے لوگ شاپنگ کرتے نکلتے تھے کہ ہر جانب ازدحام دکھائی دیتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس روز بھیڑ کی وجہ سے سڑکوں پر بہت حادثات ہوتے ہیں اورباہم لڑائی جھگڑا بھی ہو جاتا ہے، اس لیے اسے ’’بلیک فرائیڈے‘‘ کہا جاتا ہے۔اگرچہ اس روز سرکاری چھٹی نہیں ہوتی مگر آفسز اور دیگر مقامات پر کام متاثر رہتا ہے، ورک پلیس پر حاضری کی کمی اس نام کا سبب ہے۔
کاروباری حلقے اس نام کی ایک الگ ہی توجیہہ بیان کرتے ہیں، ۱۹۸۰ء میں ان کی جانب سے اس کا سبب یہ بیان کیا گیا کہ اس روز تاجر اپنی سیل کے ذریعے اتنا فائدہ حاصل کر لیتا ہے جتنا سال بھر میں نہیں کما سکتا، اس لیے وہ اس کے لیے سال کا سب سے اچھا دن ہوتا ہے، کاروبار کی زبان میں نقصان کو سرخ روشنائی سے لکھا جاتا ہے اور فائدے کو سیاہ روشنائی سے۔ اسی حوالے سے اسے ’’بلیک فرائیڈے‘‘ کہا جاتا ہے۔بلیک فرائیڈے کی کامیابی کے بعد تجارت میں کچھ اور نام بھی متعارف کروائے گئے ہیں، جیسے ’’سائبر منڈے‘‘ جو بلیک فرائیڈے کے بعد والا سوموار ہے۔ اس میں بچ رہے سامان پر آن لائن شاپنگ پر سیل دی جاتی ہے تاکہ جو لوگ محروم رہ گئے وہ فائدہ اٹھا سکیں، اور ’’گوِنگ ٹیوز ڈے‘‘ جس میں انفرادی چیریٹی کرنے والے اور خیراتی ادارے اور تنظیمیں محروم طبقے کے افراد کے لیے کرسمس کی خریداری کرتی ہیں۔۱۹۶۰ء میں کچھ لوگوں نے اس نام کو ’’بِگ فرائیڈے‘‘ کے نام سے تبدیل کرنا چاہا، لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی، اور پہلا نام ہی شہرت پا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے فاصلے سمٹنے لگے ہیں، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے۔ اس ویلیج کے ایک حصّے کے اثرات لازماً دوسرے حصّے پر پڑے ہیں اور اس میں اپنی روایات، تہذیبی عناصر اور تہواروں کے بجائے اس معاملے میں بھی نقالی ہی اہم ٹھہری ہے۔ مسلمانوں کا سب سے اہم تہوار عید الفطر اور عید الاضحی ہیں، جن کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ ہو جاتا ہے۔ جوں جوں رمضان اور عیدین قریب آتے ہیں تمام اشیاء غریب آدمی کی پہنچ سے کچھ اور دور ہو جاتی ہیں لیکن کرسمس سے پہلے ’’بلیک فرائیڈے ‘‘ کی سیل پاکستان سمیت دوسرے مسلم ممالک میں زور و شور سے جاری کی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے فرائیڈے یعنی جمعہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ جمعہ کا نام خالص اسلامی نام ہے اس سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں اس دن کو ’’عروبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب اس دن کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا تو اس کا نام ’’جمعہ‘‘ رکھا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد جو ابتدائی کام کیے، ان میں سے ایک جمعے کی اقامت بھی تھی۔ (دیکھیے، تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص ۴۹۳۔۴) یہ کسی سے پوشیدہ نہیں، یہ حج المساکین ہے، یہ مسلمانوں کے لیے عبادت اور خیر و برکت کا دن ہے اور کسی چیز کو سیاہ قرار دینا برے احساس کو ابھارتا ہے۔ جیسے مقدر کی سیاہی، نامۂ اعمال کی سیاہی، اس لیے مسلمان ممالک میں اس لفظ کا جوں کا توں استعمال کافی ناگواری اور پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔ ایک جانب مہنگائی سے پسے لوگوں کو سیل کے نام پر کشش دلائی جا رہی ہے تو دوسری جانب اس کا ایسا نام رکھا گیا ہے جو کسی بھی حساس دل کے لیے گوارا کرنا مشکل ہے۔ سوشل میڈیا پر ’’بلیک فرائیڈے سیلز‘‘ کے بائیکاٹ کی مہم زوروں پر ہے۔ سوچنے کی بات ہے ہم اپنے اتنے پیارے دن کو ’’سیاہ نام‘‘ سے کیوں پکاریں؟ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر ۱۰۶، ۱۰۷ میں سیاہ اور سفید چہروں کا ذکر کیا گیا ہے:یوم تبیضّ وجوہ وّ تسودّ وجوہ،۔ ۔ ففی رحمۃ اللہ(جس روز کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہو گا، جن کا منہ کالا ہو گا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمت ِ ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا، اچھا تو اب اس کفران ِ نعمت کے صلے میں عذاب کا مزا چکھو، رہے وہ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو انہیں اللہ کے دامن ِ رحمت میں جگہ ملے گی۔)پاکستان میں کئی جانب سے اس نام کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار ہوا، سوشل میڈیا پر عوامی شعور بیدار کرنے کی کوشش بھی ہوئی اور اس سیل کے لیے کئی نام بھی تجویز کیے گئے، جن میں ’’بلیسڈ فرائیڈے اور گولڈن فرائیڈے‘‘ بھی تھے۔ آج سعودی عرب میں بازار جانا ہوا تو یہ دیکھ کر دل خوش ہو گیا کہ یہاں بھی نومبر کے آخری ہفتے کی زبردست سیل موجود ہے، لیکن اس کا نام (عروض’’الجمعۃ البیضاء‘‘) ہے، جس میں قیمتوں میں ستّر فیصد تک کمی کی گئی ہے۔ انگریزی میں اسے ’’وائٹ فرائیڈے سیل‘‘ لکھا گیا ہے۔ مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پورے مڈل ایسٹ میں یہ سیل وائٹ فرئیڈے ہی کے نام سے جاری ہے۔ ربّی لک الحمد اہل ِ پاکستان کے لیے کی گئی تحقیق میں پتا چلا کہ یہاں دونوں ٹرینڈز چل رہے ہیں، کچھ ٹریڈ مارک ’’بلیک فرائیڈے‘‘ سے چل رہے ہیں، اور کچھ نے عوامی امنگوں کے عین مطابق اسے ’’وائٹ فرائیڈے‘‘ ہی ڈکلیئر کیا ہے، اب عوامی شعور نے اگر وائٹ فرائیڈے کا بھر پور استقبال کیا تو ثانی الذکر کی سیاہی سفیدی میں ڈھلنے پر مجبور ہو جائے گی، ان شاء اللہ۔