مشرق ہو یا مغرب، جسم فروشی کا پیشہ دنیا کے ہر خطے میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔اخلاقی و قانونی پابندیوں کے باوجود مردوں کی بڑی تعداد جسم فروش خواتین کے پاس جاتی ہے اور اپنی جیب سے رقم ادا کر کے گناہ کماتی ہے۔ اس عجیب و غریب، بلکہ افسوسناک انسانی رویے کی آخر کیا وجہ ہے، اس بارے میں ایک ایسی خاتون نے اپنی رائے دی ہے جو کئی سال تک جسم فروشی کرتی رہی اور اب اس موضوع پر تحقیق و تصنیف کے کام میں مصروف ہے۔
ڈیلی سٹار کے مطابق سابق جسم فروش اور موجودہ مصنفہ سمانتھا ایکس، جس کا اصل نام امینڈا گاف ہے، سے کسی نے پوچھا کہ انٹرنیٹ پر بہت سی ایسی ویب سائٹیں عام ہو گئی ہیں جو جنسی تعلقات کے متلاشی مردوں کو خواتین سے ملواتی ہیں اور اس کے لئے انہیں کچھ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا، تو کیا اس تبدیلی کا کوئی اثر جسم فروشی کے کاروبار پر بھی پڑے گا۔ سمانتھا نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ”میرا نہیں خیال کہ اس سے کچھ فرق پڑے گا۔ مرد ہمیشہ سے جسم فروش خواتین کو رقم ادا کر کے ان کی خدمات حاصل کرتے رہے ہیں۔ بدلتے زمانے نے اس رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی کیونکہ مردوں کی نفسیات وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔ دراصل وہ جسم فروش خواتین کو صرف جسمانی تسکین کے لئے رقم نہیں دیتے بلکہ وہ ایک گہرے تعلق، شناسائی اور دوستی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے پیسہ دینے کو تیار ہوتے ہیں، جو شاید انہیں کہیں اور میسر نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ بہت سے مردوں کو ایک قریبی تعلق اور ساتھ کی تلاش ہوتی ہے اور اسی لئے وہ جسم فروش خواتین کے پاس جاتے ہیں۔“
سمانتھا پہلے امریکا میں رہتی تھیں اور چھ سال تک جسم فروشی کے کام سے متعلق رہیں۔ اب وہ آسٹریلیا منتقل ہو چکی ہیں اور جنسی و نفسیاتی مسائل سے دوچار مردوں کو مشاورت فراہم کرتی ہیں۔ وہ سماجی و نفسیاتی امور پرتحقیق بھی کرتی ہیں اور ایک کتاب بھی تحریرکر چکی ہیں۔
Load/Hide Comments